۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
امام ھادی علیہ السلام

حوزہ/ زیارت غدیریہ کا اصلی محور تولی اور تبری ہے یعنی محبت اور برائت کا اظہار اور اس زیارت کا اصلی محتوی امام علی علیہ السلام کے فضائل کا بیان ہے۔

تحریر: ڈاکٹر محمد لطیف مطہری

حوزہ نیوز ایجنسی | شیعوں کے دسویں امام، امام علی النقی (ہادی) علیہ السلام امام محمدتقی علیہ السلام کے فرزند ہیں۔ شیخ کلینی، شیخ مفید، اور شیخ طوسی نیز ابن اثیر کے بقول امام ہادی علیہ السلام 15 ذوالحجہ سنہ 212 ہجری کو مدینہ کے قریب صریا نامی علاقے میں پیدا ہوئے۔۱۔ آپؑ کی والدہ سمانہ یا سوسن نامی ایک کنیز تھیں۔۲۔ امام ہادی علیہ السلام نجیب، مرتضی، ہادی، نقی، عالم، فقیہ، امین اور طیّب جیسے القاب سے بھی مشہور تھے۔ آپؑ کی کنیت ابوالحسن ہے۔۳۔ امام کاظم علیہ السلام اور امام رضا علیہ السلام کی کنیت بھی ابوالحسن ہے اسی لئے اشتباہ سے بچنے کے لئے امام کاظم علیہ السلام کو ابوالحسن اول، امام رضا علیہ السلام کو ابوالحسن ثانی اور امام ہادی علیہ السلام کو ابوالحسن ثالث کہا جاتا ہے۔

امام ہادی علیہ السلام سنہ 220 ہجری میں اپنے والد گرامی امام محمد تقی علیہ السلام کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئےاور 254 ہجری یعنی 34 برس تک امامت کے منصب پر فائز رہے۔ دوران امامت آپ کی زندگی کے اکثر ایام سامرا میں عباسی حکمرانوں کے زیر نگرانی گزرے ہیں۔ آپؑ متعدد عباسی حکمرانوں کے ہم عصر تھے جن میں اہم ترین متوکل عباسی تھا۔

متوکل نے سنہ 233 ہجری میں امامؑ کو مدینہ سے سامرا طلب کیا۔ متوکل نے امامؑ کی مدینہ سے سامرا کا منصوبہ اس انداز سے ترتیب دیا تھا کہ لوگ مشتعل نہ ہوں اور امامؑ کی جبری منتقلی کی خبر حکومت کے لئے ناخوشگوار صورت حال کے اسباب فراہم نہ کرے تاہم مدنیہ کے عوام ابتدا ہی سے اس حقیقت حال کو بھانپ گئے تھے۔

خطیب بغدادی (متوفٰی 463 ہجری) لکھتا ہے: متوکل عباسی نے امام ہادی علیہ السلام کو مدینہ سے بغداد اور وہاں سے سرّ من رأٰی منتقل کیا اور آپؑ 20 سال اور 9 مہینے کی مدت تک وہیں قیام پذیر رہے۔۴۔

شیخ مفید سامرا میں امامؑ کے جبری قیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خلیفہ بظاہر امامؑ کی تعظیم و تکریم کرتا تھا لیکن اندر سے آپؑ کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا تھا گو کہ وہ کبھی بھی ان سازشوں میں کامیاب نہ ہوسکا۔۵۔
معتز کے حکم پر معتمد عباسی نے آپ کو مسموم کرکے شہید کیا اور اپنے دور حکومت میں اس بدبخت نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو شہید کیا اور یوں معتمد وہ واحد حاکم ہے جس نے دو ائمہ اہل بیت علیہم السلام ؐ کو شہید کیا ہے ۔
امام ہادی علیہ السلام نے تمام شیعیان حیدر کرار کی تربیت اورانہیں معارف ناب اسلامی سے روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دعا اور زیارت امام ہادی علیہ السلام کا ایک ایسا نمایاں کارنامہ ہے جس نے شیعیان اہل بیتؑ کی تربیت اور انہیں شیعہ معارف و تعلیمات سے روشناس کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ دعائیں اگر ایک طرف سے خدا کے ساتھ راز و نیاز پر مشتمل تھیں تو دوسری جانب مختلف صورتوں میں ایسے سیاسی اور معاشرتی مسائل کی طرف اشارہ بھی کرتی ہیں جو شیعوں کی سیاسی زندگی میں بہت مؤثر رہیں اور منظم انداز سے مخصوص قسم کے مفاہیم کو مذہب شیعہ تک منتقل کرتی رہی ہیں۔امام ہادی علیہ السلام سے منقول دو زیارتیں بہت ہی معروف ہیں جن میں اعلی قسم کے دینی معارف موجود ہیں۔

۱۔زیارت جامعہ کبیرہ
زیارت جامعۂ کبیرہ ائمہ معصومین علیہم السلام کا اہم ترین اور کامل ترین زیارت نامہ ہے۔یہ زیارت نامہ شیعیان اہل بیتؑ کی درخواست پر امام ہادی علیہ السلام کی طرف سے صادر ہواہے ۔اس زیارت نامے کے مضامین حقیقت میں ائمہ معصومین کے بارے میں شیعہ عقائد، ان کی منزلت اور ان کی نسبت ان کے پیروکاروں کے فرائض پر مشتمل ہے۔ یہ زیارت نامہ فصیح ترین اور دلنشین ترین عبارات کے ضمن میں امامت شناسی اورامام شناسی کا ایک اعلی درسی نصاب ہے۔ زیارت جامعہ کبیرہ حقیقت میں عقیدۂ امامت کے مختلف پہلؤوں کی ایک اعلی اور بلیغ توصیف ہے کیونکہ اہل تشیع کی نظر میں دین کا استمرار اور تسلسل امامت سے مشروط ہے۔

۲۔زیارت غدیریہ
حضرات معصومین علیہم السلام کی زیارت کی اہمیت اور فضیلت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ بنیادی طور پر اہل بیت علیہم السلام کی زیارت افضل ترین اعمال میں سے ہے۔ ہر امام کے لیے اس کے چاہنے والوں پر ایک حق ہے اوراس حق کی ادائیگی اس امام معصوم علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرنا ہے ۔زیارت کی فضیلت اور اس کے بے شمار اجر و ثواب کے بارے میں بہت سی احادیث موجود ہیں۔ جیساکہ کتاب کامل الزیارات میں بہت ساری احادیث مذکور ہیں۔ اس کتاب کا اعتباراس قدر زیادہ ہے کہ بعض اہل علم کا نظریہ یہ ہے کہ جس راوی کا نام بھی اس کتاب میں ذکر ہوا ہے وہ ثقہ ہے اگرچہ اس راوی کی توثیق کے لئے کوئی اوردلیل موجود نہ ہو ۔

حديث غدير حضرت علی علیہ السلام کی امامت پر محکم ترين دليل ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کی امامت کو حدیث غدیر کی روشنی ميں بيان کرنا تمام ائمہ معصومین علیہم السلام کا وظیفہ اور فريضہ رہا ہے اور ائمہ معصومین علیہم السلام مختلف طریقوں سے اس کام کو انجام دیتے رہے ہیں۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کبھی حدیث غدیر کے ذریعے عقیدہ امامت کے مخالفین کے سامنے احتجاج کرتے تھے، کبھی واقعہ غدیرکی شرح و تفصیل بیان کرتے تھے یہاں تک کہ اپنی دعاؤں اور زیارات میں واقعہ غدیر بیان کرتے تھے۔

حضرات معصومین علیہم السلام کی زیارتوں میں سے ایک بہترین زیارت ،زیارت غدیریہ ہے جسے امام ہادی علیہ السلام نے نقل کیا ہے۔ جب ملعون معتصم نے امام ہادی علیہ السلام کو جلاوطن کر رہے تھے توامام ہادی علیہ السلام عید غدیر کے موقع پر نجف اشرف پہنچے تو آپ نے اپنے جد امجد حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی اسی زیارت کی تلاوت کر کے زیارت کی۔ آپ 18 ذی الحجہ کو مناسب فرصت جان کر حدیث غدیر کو دوبارہ بیان کر تے ہیں اور اسی وجہ سے اس دن امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی زیارت کرتے ہیں اور اسی مناسبت سے بہت سے حقائق کوواقعہ غدیر کے ضمن میں بیان کر تے ہیں۔یوم غدیر کے اعمال میں سے نماز عید غدیر اور زیارت غدیریہ کے لئے خاص تاکید کی گئی ہے۔البتہ یہ دونوں عبادات اس دن سے مخصوص نہیں ہیں اور روایت کے مطابق یہ اعمال دوسرے ایام میں بھی انجام دے سکتے ہیں۔

مرحوم شیخ عباس قمی مفاتیح الجنان میں اس زیارت کے بارے میں لکھتے ہیں: روایت کے مطابق ہے اس زیارت کو کسی بھی وقت اور کسی بھی مقام پر پڑھا جا سکتا ہے ۔۷۔ہم نے کتاب ہدیۃ الزائرین میں اس زیارت کے اسناد کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ اس زیارت کو ہر روز دور اور نزدیک سے پڑھ سکتا ہے۔یقیناً عبادت کے شوقین اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی زیارت کے مشتاق حضرات کے لئے یہ زیارت غنیمت سے کم نہیں ہے ۔تمام ماثورہ زیارتوں میں سے سند کے اعتبار سے اس سے مضبوط اورکوئی زیارت موجود نہیں ہے ۔

زیارت غدیریہ میں قرآن ناطق امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے دو سو چھ (۲۰۶) فضیلتیں بیان ہوئی ہے۔اس زیارت کے سلسلہ سند میں موجود راویان نہ صرف عادل اور شیعہ امامی ہیں بلکہ ہر دور کے پہلے درجے کے شیعہ تھے اور اس زیارت کا سلسلہ سندامام زمان عج کے پہلے اور تیسرے خاص نائبین کے ذریعے امام حسن عسکری اور امام ہادی علیہما السلام تک پہنچ جاتا ہے۔

طول تاریخ میں ہمیشہ لوگوں نے امیر المومنین علیہ السلام کے فضائل کو چھپانے کی کوشش کی ہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ان کے چاہنے والوں نے خوف کی وجہ سے اور ان کے دشمنوں نے کینہ اور حسد کی بنا پر ان کے فضائل بیان نہیں کیا ہے ۔لیکن خدا کی شان اورقدرت کو دیکھ لیں کہ آج ان کے فضائل مشرق و مغرب تک جا پہنچا ہے اور بہت سے مخالفین بھی ان فضائل کا اعتراف کرتے ہیں۔زیارت غدیریہ میں حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل و مناقب کا لامتناہی سمندر موجود ہے۔خطبہ غدیر اورزیارت غدیریہ کا سلسلہ سند بے نظیر ہے اور اور شیعہ بزرگان نے بھی اسے نقل کیا ہے ۔ امیر المومنین علیہ السلام کے فضائل اوران کی حقانیت بیان کرنا اس حساس زمانے میں جہاں وحدت اسلامی کے لئے سر توڑ کوششیں کی جارہی ہے ،سے متصادم نہیں ہے۔اسلامی اتحاد کے بہانے ہمیں اس اہم کام سے غفلت نہیں کرنا چاہیے ۔

زیارت غدیریہ میں موجود نکات

ذیل میں اختصار کے ساتھ ہم زیارت غدیریہ کے مواد کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔زیارت غدیریہ کا اصلی محور تولی اور تبری ہے یعنی محبت اور برائت کا اظہار اور اس زیارت کا اصلی محتوی امام علی علیہ السلام کے فضائل کا بیان ہے۔ ان فضائل کے تین اہم حصے ہیں:

قرآنی فضائل:

اس زیارت میں(3۲) بتیس آیات موجود ہیں جن میں امیر المومنین علیہ السلام کے فضائل بیان ہوئی ہے ۔ جیسے آیت لیلۃ المبیت، آیت تبلیغ اور آیت ولایت۔

حدیثی فضائل:

زیارت غدیریہ میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے ان فضائل کی طرف اشارہ ہوا ہے جن کا ذکر شیعہ اور سنی احادیث میں موجود ہے۔اس زیارت میں آپ کے تقریباً 206 فضائل بیان ہوئے ہیں جیسے : امیرالمؤمنین، سیّد الوصیّین، وارث علم النّبیّین، ولیّ ربّ العالمین، امین الله فی ارضه، سفیر الله فی خلقه، الحجّه البالغه علی عباده، دین الله القویم، صراط مستقیم، نبأ عظیم، اوّل من آمن باللّه، سیّد المسلمین، یعسوب المؤمنین، امام المتقین، قائد الغرّ المحجّلین، امام المّتقین، اوّل من صدّق بما انزل الله علی نبیّه، عبدالله، المخصوص بمدحه الله، المخلص لطاعه الله، اوّل العابدین، ازهد الزّاهدین، الکاظم للغیظ، العافی عن النّاس، الصّابر فی البأسآء و الضّرّآء و حین البأس، العادل فی الرّعیّه، العالم بحدود الله من جمیع البرّیّه، المخصوص بحکم التّنزیل و حکم التّاویل و نصّ الرّسول (صلی الله علیه و آله)، حآئز درجه الصّبر، فآئز بعظیم الاجر، الحجّه البالغه، النّعمه السّابغه، البرهان المنیر، احسن الخلق عباده، اخلص النّاس زهاده.

تاریخی فضائل:

اس زیارت میں امام علی علیہ السلام کی تاریخی فداکاریوں اور اسلام کے لیے ان کی قربانیوں کاذکر موجود ہے۔ جیسے غزوہ بدر، غزوہ احزاب، غزوہ احد،جنگ حنین، جنگ صفین،جنگ جمل اورجنگ نہروان وغیرہ۔

اسی طرح اس زیارت میں باغ فدک کے غصب کرنے کے بارے میں، ولایت کے دشمنوں سے بیزاری کا اظہار ،جناب عماریاسر، امام علی علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت اوران کے قاتلوں سے اظہار برائت اورلاتعلقی کے بارے میں ذکر موجود ہے ۔

آخر میں دعا کرتے ہیں کہ خداوند متعال ہم سب کوعید سعید غدیر کے دن اور باقی ایام میں زیارت غدیریہ اورزیارت جامعہ کبیرہ کی تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔

حوالہ جات:

۱۔مفید، الارشاد، ص635۔
۲۔ اربلی، ابی الحسن علی بن عیسی بن ابی الفتح اربلی،کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ،ج۴،ص۴۳۲، قم، مجمع جہانی اہل بیت، 1426 ہجری
۳۔بغدادی، خطیب، تاریخ بغداد، ج12، ص56،تحقیق: مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت: دارالکتب العلمیہ، 1417۔
۴۔مفید، محمد بن محمد بن‏ نعمان، الارشاد، ترجمہ ساعدی خراسانی،ص ۶۴۹،تہران، انتشارات اسلامیہ،1380۔
۵۔ایضا
۶۔مفاتیح الجنان ،زیارت مخصوص امیر المومنین علیہ السلام ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .